Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر10

صبح خبیب شاہ کی آنکھ 10 بجے کے قریب کھلی۔ادھر  نظر دوڑائی وہ کہیں نظر نہیں آئی ۔ باتھروم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی
ہممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اچھا ہے میرے اٹھانے سے پہلے آٹھ گئی۔
لبابہ باتھروم سے فریش ہو کر نکلی تو خبیب شاہ کو سوتا ہوا دیکھ شکر کا سانس لیا جو کہ شاہ سمجھ چکا تھا.
خبیب شاہ کن انکھیوں سے اسے دیکھا تو وہ اپنے ایک ہاتھ سے بال سنوارنے کی کوشش کر رہی تھی
دوسرے ہاتھ پر جلے ہوئے تازے نشان برقرار  تھے
جب دو تین بار بھی بال بنانے میں وہ ناکام ہوئی تو لبابہ وہیں زمین پر بیٹھ کر بےبسی سے رونےلگی
اور خبیب شاہ وہیں پتھر بنا بے سدھ لیٹا رہا.
لبابہ کو روتے روتے ایک دم غصہ آیا اور بےدردی سے آپنا جلا ہوا ہاتھ زمین پر مارنے لگی
جب خبیب شاہ سے برداشت نہ ہوا تو وہ ایک جھٹکے سے اور چھلانگ مارتے ہوئے اس تک پہنچا اور اس کے دونوں ہاتھ غصے سے پکڑے اور زور سے دھاڑا...............
یہ کیا بدتمیزی ہے ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھتی کیا ہو خود ہاں بولو کیوں سانپ سونگھ گیا۔۔
تمہیں پہلے بھی کہا ہے تمہاری زندگی کا فیصلہ میرے ہاتھ میں ہے پھر کیا ہے یہ سب میری مرضی سی جیو گی اور مروگی سمجھی تم اب اگر تم نے ایسی ویسی کوئی حرکت کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھی 
لبابہ جو ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی ایک جٹھکے سے دور ہوئی اور پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے بولی
خبیب شاہ تم کیا سمجھتے ہو خود کو تم بتاؤ ہو کیا ہاں
میں انسان ہوں جانور نہیں جو تمہاری دی ہوئی ہر تکلیف برداشت کروں گی 
خدا کا واسطہ مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے تمہارا ہر عمل اور تمہارے الفاظ میری روح تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ 
چ۔چ۔چ۔چ لبابہ عادل کہاں گیا تمہارا غرور  ابھی سے ہار مان لی ابھی تو بہت حساب باقی ہاہاہاہاہاہاہاہاہا
وہ استزاہیہ ہنسی ہنستے ہوئے اس کی روح کو ایک بار پر زخمی کر گیا 
نہیں مانی ہار میں نے خبیب شاہ سہ تو رہی ہوں تمہارے ظلم کے تو رہے ہو تم بدلہ وہ بھی سود سمیت 
وہ چلتے ہوئے اس تک پہنچی اور اسے کالر سے پکڑتے ہوئے دیوانہ وار بولتی رہی
یہ دیکھو یہں ہے نہ وہ ہاتھ 
اس کی طرف آپنا جلا ہوا ہاتھ دیکھاتے ہوئے بولی 
دیکھو تم نے یہ بھی جلا دیا
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا اور روتے روتے زور زور سے ہنسنے لگی 
اور شاہ کو لگا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو 
شاہ گھبراتے ہوئے دھاڑا
بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
کیں سن کر برا لگ رہا ہے نہیں کرتی بند کیا کرو گے ہاں 
مارو گے میں تو چاہتی ہوں جان سے ماردو سارا قصہ ختم ہو
پتا ہے تم جیسے مردوں کو لگتا ہے کہ عورت کو رلانےسے 
تڑپانے سے؛ ترسانے سے اور ظلم وستم کرنے سے ان کی مردانگی کی شان بڑھتی ہے تو ان کی غلط فہمی ہے
جب عورت ظالم وستم برداشت کرتی ہے روتی ہے تڑپتی ہے تو رفتہ رفتہ ان کی آنکھوں سے آپ کے لیے عزت و احترام اور ڈر ختم ہو جاتا ہے
نہ تو اسے تمہاری نفرت کی فکر ہوتی ہے نہ ہی ہمدردی کی
جس دن صبر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ اس دن آنسو ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفرت ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظلم و ستم ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہے گا تو بس خالی وجود جسے جب چاہو توڑلو ۔۔۔۔۔
جب چاہے جوڑ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کہتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی اور زور زور سے دھاڑے مار کر رونے لگی اور خبیب شاہ بنا کچھ کہے اسے ایسے ہی چھوڑتا ہوا نکل گیا اور اسٹی میں جاکر بند ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹیبل کے پاس پہنچا اور دراز میں سے لائٹر او سیگریٹ نکال کر سلگانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دو تین۔۔۔۔۔۔پتا نہی کتی سیگریٹ وہ پیتا رہا ضبط کے مارے آنکھیں شعلہ برسا رہی تھی وہ وہاں سے نکلا اور واشروم میں جاکر ٹھنڈے پانی کے شاور کے نیچے کھڑا اپنے اندر کی آگ کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا اور لبابہ وہاں سے اٹھی اور دوسرے کمرے میں جاکر خود کو بند کر لیا اور وضو کیا اور رب تعالیٰ کے سربسجود ہوگئ 
وہیں شاہ جلدی سے تیار ہوا اور لبابہ کو بنا کچھ کہے آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔۔۔۔
لبابہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو خود بخود آنسوں باڑ توڑتے ہوئے گالوں کو بھگو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور لبابہ اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھائے ہچکیوں سے مخاطب ہوئی
یا اللہ میں تیری رحمت سے ناامید نہیں ہوں ۔۔۔
میں تیری ناشکری بندیوں میں سے ہوں۔۔۔۔۔۔
مولا مجھے معاف فرما دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ میں مشکلوں سے گھبرا گئ ہوں مجھے صبر و تحمل عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ جی آپ تو جانتے ہیں موت بے حد آسان ہے۔۔۔۔۔
موت سے پہلے،بہت پہلے کا ایک لمحہ، موت کی اذیتوں کو چھو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ جی اگر خبیب شاہ ہی میرے نصیب میں ہے تو اللہ جی اس کے دل میں میرے لیے محبت نہ سہی نفرت ہی مٹا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ ایسا نہ ہو ک میرے لیے اسے آگے چل کر معاف کرنے میں دل مردہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔
''بے شک تو دلوں کے حال جانتا ہے''
وہ جائے نماز سے اٹھی اور دل میں سکون محسوس کرکے نیچے آئی اور کام میں لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریبا 3 گھنٹے میں سارے کام سے فارغ ہوئی تو بھوک کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے کیچن میں آئی اور اپنے لیے ناشتہ بنانے لگی۔۔۔۔۔۔
انڈا اور پراٹھا بنا کر ٹیبل پر رکھا اور چائے نکال کر ٹیبل تک آئی اور کھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر دس منٹ تک کھایا اور رات کے کھانے کا انتظام کیا۔۔
بریانی کا سا بنایا اور قیمہ مٹر بنانے کے لیے مٹر ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً 6 بجے فارغ ہوئ اور برتن دھونے کے بعد لاؤنچ میں صوفے پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔
لیٹے لیٹے معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔۔
شاہ 7 بجے گھر آیا اور اسے سوتے دیکھ کیچن میں گیا اور پانی کا گلاس اس پر انڈیل دیا
لبا جو سوئی تھی ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی۔۔۔۔۔۔
کککیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔    
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے اجازت کے بغیر یہاں سونے کی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کا منہ دبوچے اس پر گرفت مضبوط کیا غصے سے دھاڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شاید صبح والی بات کا غصہ اتار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
دفع ہو جاؤ اور میرے لیے کھانا لے کر آو
وہ روتے ہوئے کیچن میں بھاگی اور شاہ کے لیے کھانا گرم کرنے لگی 
قریبا 10 منٹ تک وہ کھانا ٹیبل پر لگا کر اس کا ویٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبیب شاہ نیچے آیا اور کھانے کے لیے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
ابھی پہلا ہی نوالہ لیا کہ شاہ نے جان بوجھ کر پلیٹ نیچے گرائی اور زور سے تھپڑ رسید کیا۔۔۔۔۔۔۔
کیا تھا یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھاؤ نیچے سے او
سے اور پلیٹ میں ڈالو لبابہ نے جلدی سے کھانا پلیٹ میں ڈالا اور چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔
بیٹھو نیچے لبابہ جلدی سے نیچے بیٹھی معا یہ نہ ہو کی ایک اور تھپڑ ماردے
اب شاہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا اس کا ایک پاؤں زمین پر اور دوسرا لبابہ کے چہرے کے بلکل قریب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حکم دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اسے 
پر مجھے بھوک نہیں ہے لبابہ منمنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا ۔۔۔۔۔۔۔شاہ نے دبے دبے لہجے میں کہا۔۔۔۔
کککککچھ نہی۔۔۔۔۔۔۔۔ لبابہ نے بامشکل آنسوں کا گولا کلے میں اٹکاتے ہوئے جواب دیا۔
تو کھاؤ میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبابہ بمشکل اپنے آنسوں کو کنٹرول کرتے ہوئے کھانے لگی جبکہ آنسو باڑ توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب تھے
لبابہ نے جلدی سے کھایا اور اٹھنے کے لیے کھڑی ہوئی وہ جلد ازجلد وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
توہین کے احساس سے اس کا چہرا لال ہو رہا تھا اور شاہ اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہا تھا
میں نے کہا کہ یہاں سے جاؤ چپل اتارو میری ۔۔۔۔۔۔
اس کی اس بات پر لبابہ نے جھکا ہوا سر جھٹکے سے اٹھایا کہ کوئی اتنا سنگدل کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
لبابہ نے حکم کی تکمیل کی اور چپل اتارنے لگی 
ہمممممممممم تمہاری اوقات اس چپل جتنی بھی نہیں ہے لبابہ عادل میری بیوی بننے کی تو دور کی بات۔۔۔۔۔۔
اور لبابہ پانی بھری آنکھ سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہوئے صرف اتنا ہی بولی
خبیب شاہ میرا طرف اتنا بڑا نہیں کہ آگے چل کر معاف کر سکوں اور رہی بات اوقات کی تو یاد رکھنا
میرا رب مجھے وہ بھی دے گا جس کی میری اوقات نہیں اور وہ وہاں سے۔ نکالتی ہوئی چلی گئی اور خبیب شاہ ابھی بھی اس کے لفظوں میں اٹکا ہوا تھا۔۔۔۔۔
دیکھتے ہیں قسمت کونسا موڑ لاتی ہے 
"اور بے شک اللہ بیسٹ پلینر ہے"

   0
0 Comments